Shaikh Sadi Ki Hakayat
علماء میں سے ایک ، ایک شہزادے کی تربیت کرتا تھا ۔ اسے بے پروا ہی سے مارتا اور بے پناہ ظلم کیا کرتا تھا ۔ ایک مرتبہ بیٹے نے نڈھال ہو کر اپنے باپ سے شکایت کی اور اپنے دکھتے جسم سے لباس ہٹا دیا ۔ باپ کے دل کو بہت تکلیف ہوئی ۔
اس نے استاد کو بلایا اور کہا
تم عام رعایا کے بیٹوں سے اس قدر سرزنش اور ظلم کا سلوک روا نہیں رکھتے جس قدر میرے بیٹے سے رکھتے ہو ؛ اس کی کیا وجہ ہے ؟
اس نے کہا !
وجہ یہ ہے کہ سنجیدہ بات اور اچھا عمل کرنا سب مخلوق کے لیۓ عام طور پر اور بادشاہوں کے لیۓ خاص طور پر ضروری ہے ۔ اس لیۓ کہ جو قول و فعل ان ( بادشاہوں ) سے سرزد ہوتا ہے یقینا لوگ اسے اپنا لیتے ہیں جبکہ عام لوگوں کے قول و فعل کو اس قدر اہمیت حاصل نہیں ہوتی ۔
اگر کوئی غریب آدمی ایک سو ناپسندیدہ باتیں کرے اس کے ساتھی سو میں سے ایک بھی نہیں جانتے ۔
اور اگر کوئی بادشاہ ایک مذاق کرے تو اسے ایک خطے سے دوسرے خطے میں پہنچا دیتے ہیں ۔
پس واجب ٹھہرا کہ شہزادے کے استاد کو بادشاہوں کے بیٹوں کی اخلاقی شائستگی کے لیۓ ، کہ خداوند تعالی ان کی نیک تربیت میں پرورش کرے ، عوام کی نسبت زیادہ کوشش کرنی چاہیۓ ۔
وہ جس کو اس کے بچپن میں تربیت نہ کریں ، بڑے ہو کر بھلائی اس سے جاتی رہتی ہے ۔
گیلی لکڑی کو جیسے چاہو موڑو ، خشک لکڑی آگ کے سوا کہیں سیدھی نہیں ہوتی ۔
بادشاہ کو عالم کی حسن تدبیر اور جواب کی ادائیگی پسند آئی، اسے نعمت اور خلعت عطا کی اور اسکارتبااورعہدہ بڑھا دیا۔
0 Comments